مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم
تحریر: ثوبیہ چیمہ
پاکستان میں خواتین کی مجموعی آبادی تقریباً 50 فیصد ہیں ۔ جولگ بھگ11کروڑ 50 لاکھ کے قریب ہے ۔ ورلڈ بینک کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کسی بھی ملک میں مستحکم ترقی کے اہداف کے حصول کے لئے اُس ملک کی تقریباً 45 فیصد خواتین کو ورک فورس کا حصہ بننا ہو گا ۔
ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں خواتین ورک فورس کاتقریباً 21 فیصد ہیں ، جوکہ جنوبی ایشیا کی سب سے کم ترین سطح ہے ۔ اس کے علاوہ ورلڈبینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف تقریباً 2 فیصد خواتین کاروبا ر سے منسلک ہیں ۔ دوسری جانب پاکستانی خواتین میں شرح خواندگی کی بات کریں تو وہ خواتین کی کُل آبادی کا نصف ہے اور ان میں بھی صرف 10 فیصد خواتین یونیورسٹی کے درجہ تک پہنچ پاتی ہیں ۔
صنفی امتیاز کو پرکھیں تو وہاں بھی پاکستانی خواتین کے لئے اُ مید کا سورج تاحال طلوع ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔ 2020 ء میں جینڈر گیپ سے متعلق ایک عالمی سروے میں پاکستان 156 ممالک میں 153 نمبر پر ہے ۔
یہ صنفی امتیاز گھر کی دہلیز سے شروع ہو کر ملازمتوں کی کرسیوں تک واضع دکھائی دیتا ہے ۔ بیجنگ پلیٹ فارم آف ایکشن کے تحت پاکستان 30 فیصد آسامیوں پر خواتین کو بھرتی کرنے کا پابند ہے ۔ مگر اس پابندی کا اطلاق تاحال اپنے منصفانہ نفاذ کا منتظر ہے ۔
ملک میں ہر سال میڈیکل گریجویٹ کرنے والے طالب علموں میںتقریباً 70 فیصد خواتین اور 30 فیصد مردشامل ہیں ۔ مگرجب بطور ملازمت ڈاکٹروں کی بات کی جائے وہاں خواتین کی تعداد نصف رہ جاتی ہے ۔ مطلب جہاں عورت کے مستحکم ہونے کی بات آتی ہے، وہاں ہمارے معاشرتی رویے عورت کے پیروں میں جبراً مجبوری اور لاچاری کی بیڑیا ں ڈال دیتے ہیں ۔
معاشرتی اقدار ، صنف کی نزاکت ، گھر کی زینت اور عزت کی پاسدار جیسے القابات کا غلط استعمال عورت کی خداد صلاحیتوں کو مانند کر ڈالتا ہے ۔ حالانکہ یہی صنف ِ نازک کہلائے جانے والی عورت ہر محاذ پر مردوں کے شانہ بشانہ اپنا لوہا منوا چکی ہے ۔ میدان ِ جنگ سے لے کر عدل کے ایوانوں تک ، سفارتکاری کے محاذ سے لے کر داخلی امور تک ، پاکستانی خواتین اپنی کامیابی اور دلیری کے جھنڈے گاڑ چکی ہیں ۔
لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر ، دفاعی شعبے میں ملک کی تاریخ میں پہلی بار لیفٹینٹ جنرل کے عہدے پر ترقی پانے والی خاتون بنیں ۔ پاکستان کی سب سے معتبر عدالت سپریم کورٹ آف پاکستا ن میں پہلی بار جج کا حلف اُٹھانے والی خاتون جسٹس عائشہ ملک ، حلینہ اقبال سعید ، شیبا شاہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل کے عہدے پر ترقی پانے والی پاکستانی خواتین دلیری اور شجاعت کی زندہ مثالیں ہیں ۔
صائمہ سلیم ، بصارت سے محرومی کے باوجود جنیوا میں بطور سفارتکار پاکستان کا سر فخر سے بلند کر چکی ہیں ۔ شیر سسٹرز کے لقب سے جانےجانے والیں ایک ہی گھر کی پانچ بہنیں سول سروسز کا امتحان پاس کر کے نمایاں عہدوں پر تعینات ہوکر ایک منفرد ریکارڈ قائم کر چکی ہیں ۔
اس کے علاوہ خیبر پختونخواہ میں 100 کے قریب خواتین کمانڈوز ایلیٹ فورس کا حصہ بن کر دشمن قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہیں ۔ تعلیمی اور طبی شعبے میں بھی خواتین ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔ یہ تمام تر کردار ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کی عورت کسی بھی قسم کے ظلم اور بندشوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے بھی اپنی کامیابی کی منزلوں کے راستے خود بنا سکتی ہے ۔
اسے صنف نازک یا صنف آہن کے القابات سے نوازنے کی بجائے ضرورت ہے تو برابری کے مواقع کی ، اسے ضرورت ہے تو صنفی امتیاز سے رہائی کی ، اسے ضرورت ہے تو اپنی ذات پر اعتبار کی ، تاکہ بلا خوف و خطر وہ اپنی ذات کی بھرپور اور اصل ترجمانی کر سکے ۔
وہ تمام کردار جو عورت کو جہالت کے اندھیروں میں قید کر کے صرف اپنی ذات کو روشن رکھنا چاہتے ہیں ، وہ یہ جان لیں کہ ثقافت سے لے کر معیشت تک کوئی بھی راستہ عورت کے مثبت کردار کی حصہ داری کے بغیر ترقی کی منزلیں حاصل نہیں کر سکتا ۔
طاقتوروں کی کھوکھلی انائوں کا عکس آج بھی عورت کے حقیقی روپ اور کردار کو تاریک کئے ہوئے ہے۔ ہمارے معاشرے کی عورت تاحال فرسودہ رسومات کی زنجیروں میں جکڑےہوئے ، انتھک اپنے حق کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ مگر اُس کا عزم اب بھی ناقابل ِ تسخیر ہے ۔
کچھ اور بڑھ گئے جو اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم