Homeتازہ ترینانقلابی شاعر حبیب جالب : 30 برس گزر گئے

انقلابی شاعر حبیب جالب : 30 برس گزر گئے

انقلابی شاعر حبیب جالب : 30 برس گزر گئے

ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا

حبیب جالب کا نام ان لوگوں میں شامل ہے جن کی آواز وقفے وقفے سے ہمارے کانوں تک پہنچتی رہتی ہے۔ اس کے باوجود بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ جالب کون تھے؟ اور ان کی وجہ شہرت کیا ہے؟
حبیب احمد المعروف حبیب جالب 24 مارچ 1938 میں بھارتی شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے، تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان منتقل ہوا، انہوں نے روزنامہ امروز میں بطور پروف ریڈر ملازمت کی، ان کی نظمیں مختلف اخبارات اور رسائل کی زینت بنیں جو عوام میں بے حد مقبول ہوئیں ۔

اینگلو عریبک ہائی سکول دہلی سے میٹرک کرنیوالے جالب نے گورنمنٹ ہائی سکول جیکب لائن کراچی سے مزید تعلیم حاصل کی۔

محبت گولیوں سے بو رہے ہو، وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے، یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

حبیب جالب کو نظیراکبرآبادی کے بعد دوسرا عوامی شاعر بھی کہتے ہیں، وہ ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جن کی شاعری آج بھی عوام میں مقبول ہے، حبیب جالب نے ظلم، زیادتی، بے انصافی اور عدم مساوات کے حوالے سے جو لکھا وہ زبان زدِ عام ہو گیا۔

حبیب جالب کی رومانوی شاعری میں جذبوں کی شدت نمایاں ہے ان کے لکھے گیت آج بھی مقبول ہیں، حبیب جالب کی معروف تصانیف میں سرمقتل ، ذکر بہتے خون کا ، گنبدے بیدار ، خیالات حبیب جالب ، حرف حق ، عہد ستم اور دیگر شامل ہیں ۔

جی دیکھا ہے مر دیکھا ہے، ہم نے سب کچھ کر دیکھا ہے

ہم نے اس بستی میں جالب، جھوٹ کا اونچا سر دیکھا ہے

حبیب جالب کے اپنے گھر میں ہمیشہ غربت، افلاس اور فاقوں کی حکمرانی رہی مگر ہر دور میں انہوں نے انسانی برابری اور معاشی انصاف کی اعلیٰ اقدار کی خاطر معاشرے کے انتہائی طاقتور اور غاصب طبقوں کے خلاف جنگ جاری رکھی۔ کوئی فرعون جالب کو مرعوب کرسکا نہ کوئی قارون انہیں خرید سکا۔ محنت کشوں، جھگیوں کے مکینوں اور زمین کو اپنے لہو اور پسینے سے سیراب کرنے والے کسانوں کے دکھ درد بیان کرنے کے لئے جالب نے ہمیشہ اپنی شاعری کو وقف رکھا۔

حبیب جالب نے ذوالفقارعلی بھٹو کو اپنے اشعارمیں خراج تحسین پیش کیا جبکہ ضیاء دورمیں مارشل لاء کے باوجود ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، مزدوروں کے جلسوں میں یا سیاسی تنظیم کا کوئی پلیٹ فارم ہو، حبیب جالب کی نظمیں تو زبان زد عام تھیں ہی انکے فلمی گیت بھی بڑے مقبول ہوئے۔ حبیب جالب نے فلموں کے لئے بھی نغمہ نگاری کی، فلم زرقا کے گانے نے انہیں بہت شہرت دی۔

حبیب جالب کی نظمیں

حبیب جالب کی نظموں کے پانچ مجموعے ’’برگ آوارہ‘‘، ’’سرمقتل‘‘، ’’عہد ستم‘‘، ’’ذکر بہتے خون کا‘‘ اور ’’گوشے میں قفس‘‘ کے شائع ہو چکے ہیں۔ حبیب جالب کے قلم سے نکلا ہوا ہر لفظ عوامی جذبات کی عکاسی کرتا تھا، حبیب جالب کی انقلابی سوچ صرف شعری مجموعوں میں ہی نہیں کئی معروف فلمی نغمہ نگاری میں بھی چلی۔

وقت کے آمروں کو للکارنے والی ایک توانا آواز حبیب جالب 12 مارچ 1993 میں اس دنیائے فانی سے تو چلے گئے لیکن ان کی انقلابی شاعری آج بھی تازہ و معطر ہے انکی تدفین قبرستان سبزہ زار سکیم میں کی گئی اور بعد از وفات نشان امتیاز سے نوازا گیا ۔

Share With:
Rate This Article
No Comments

Leave A Comment