پنجاب اور کے پی انتخابات : کورٹ آرڈر جاری نہیں ہوا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی؟ جسٹس جمال
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کے تیسرے دن جسٹس جمال مندوخیل نے ریماکس دئیے کہ جب آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں ہوا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی؟ الیکشن کمیشن نے کیسے الیکشن شیڈول جاری کیا؟۔
سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کل میرے ریمارکس پر بہت زیادہ کنفیوژن ہوئی ہے، میں وضاحت کرتا ہوں، میں اپنے تفصیلی آرڈر پر قائم ہوں۔
فیصلے کا ایک حصہ انتظامی اختیارات کے رولز سے متعلق ہے، چیف جسٹس کو کہیں گے کہ رولز دیکھنے کے لیے ججز کی کمیٹی بنائی جائے، ججز کی کمیٹی انتظامی اختیارات کے رولز کو دیکھے، فیصلے کے دوسرے حصے میں ہم 4 ججز نے ازخود نوٹس اور درخواستیں مسترد کی ہیں۔
وکیل فاروق نائیک نے یکم مارچ کے فیصلے کی وضاحت کے لیے فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کے تقاضوں کے لیے ضروری ہے کہ یہ فیصلہ ہوکہ فیصلہ 4/3 تھا یا 3/2 کا، پورے ملک کی قسمت کا دار ومدار اس مدعے پر ہے۔
چیف جسٹس نے فاروق نائیک کو ہدایت کی کہ اپنی درخواست تحریری طورپرجمع کرائیں، فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے، یہ کیس سننے سے پہلے اس بات کا فیصلہ ہونا چاہیےکہ فیصلہ 4/3 کا ہے، پہلے دائرہ اختیار کے معاملے پر فیصلہ کریں۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اس مدعے پر فیصلہ تب کریں گے جب درخواست سامنے ہو، پرسکون رہیں، پرجوش نہ ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے ہم الیکشن کمیشن کو سنیں گے، تمام لوگ پی ڈی ایم کی نمائندگی کر رہے، اس پر فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں اتحادی حکومت کا حصہ ہے۔
جسٹس جمال نے کہا کہ پہلے الیکشن کمیشن یہ بتائے کہ انہوں نے شیڈول جاری کیسے کیا؟ الیکشن کمیشن کے پاس جب آرڈرآف دی کورٹ آیا ہی نہیں تو اس نےعمل کیسے کیا؟ سپریم کورٹ کا حکم وہ ہوتا ہے جو آرڈر آف دی کورٹ ہو۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مختصرحکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں، اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے سے متفق ہیں، کیا جسٹس یحیٰی آفریدی اورجسٹس اطہرمن اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہوگئے؟۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو معاملہ ہمارے چیمبر کا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں، اٹارنی جنرل اس نقطہ پر اپنے دلائل دیں گے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کا آرڈر کس وقت جاری کیا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ انتخابات ملتوی کرنے کا حکم 22 مارچ شام کو جاری کیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ دہشتگردی سے متعلق باتیں بہت اہم ہیں، خیبرپختونخوا میں دہشتگردی سے متعلق رپورٹس سنجیدہ ہیں، کیا یہ سب صدر مملکت کو بتایا گیا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تمام صورتحال سے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا تھا۔
جسٹس منیب نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے التوا میں 8 فروری کے خطوط پر انحصارکر رہا ، عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیا، آپ کو تو فروری میں ہی پتا تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے، دوسری طرف الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ بھی نہیں سکتے، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو الیکشن کمیشن نے صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں تجویزکی؟۔
دوسرے روز سماعت
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ انتحابات کرانے کے لیے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا کر الیکشن کا بجٹ پورا کیا جاسکتا ہے۔
آج سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس سماعت کو بہت لٹکانا نہیں چاہتے، کل کے حکم نامے کے مطابق الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیارکو دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے کہ نہیں، سیاسی جماعتوں کے فریق بننے کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رول آف لاء اور جمہوریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، آج کل سیاسی پارہ بہت اوپر ہے، گزشتہ روز یہ درخواست کی تھی کہ سیاسی جماعتیں یقین دہانی کرائیں، آپس میں برداشت، تحمل اور امن وامان کی صورتحال ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریماکس دیتے ہوئے مزید کہا کہ ذاتی طورپرسمجھتا ہوں کہ ہمیں قانونی تنازع میں نہیں پڑنا چاہیے، ہم نے سماجی اور سیاسی ڈسپلن کی بحالی بھی کرنی ہے، سپریم کورٹ اچھی نیت کے ساتھ کیس سن رہی ہے۔
فریقین نے فیصلہ کرنا ہے کہ حالات کو کس طرف لےکر جاتے ہیں، کل بھی کہا تھا کہ قانونی معاملہ ہوا میں حل نہیں کیا جاسکتا، آئین زندہ دستاویز ہے، اس کی تشریح زمینی حالات پر ہی مبنی ہوسکتی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے فاروق ایچ نائیک سے سوال کیا کہ آپ یہ پوائنٹ پارلیمنٹ کیوں نہیں لے جاتے؟ اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارلیمنٹ میں معاملہ اٹھانے کا سوچ رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ یکم مارچ کے حکم میں 2 ججزنے فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے کہا کہ یہ ایک الگ کیس ہے، یکم مارچ کے فیصلے پر میرا جواب ہے کہ قانون صدر کو اختیار دیتا ہے وہ تاریخ دیں، اگر آپ یکم مارچ کے فیصلے پر وضاحت چاہتے ہیں تو الگ سے درخواست دیں، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہو جائے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کرلیا جائے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اس وقت مقدمہ تاریخ دینے نہیں منسوخ کرنے کا ہے، جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں، دو معزز ججز نے فیصلہ دیا ہے، ان دو ججز کی اپنی رائے ہے لیکن اس کا موجودہ کیس سے کوئی تعلق نہیں، ایک سنجیدہ معاملے کو بائی پاس نہ کریں، بینچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا۔
پہلے روز سماعت
گزشتہ روز کی سماعت میں سپریم کورٹ میں پنجاب اور کے پی میں عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کی درخواست پر وفاق، الیکشن کمیشن اور گورنر خیبرپختونخوا کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے تمام فریقین سے کل تک جواب مانگ لیا تھا۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل بینچ پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ آئین اور قانون عوام کے تحفظ کیلئے بنائے گئے ہیں، آئین اور قانون کی تشریح حقیقت پر مبنی کرنی ہے، ہوا میں نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا وہ پولنگ کی تاریخ مقرر نہیں کرسکتا، اب الیکشن کمیشن نے پولنگ کی نئی تاریخ بھی دے دی، کیا الیکشن کمیشن کے مؤقف میں تضاد نہیں؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو فریقین کو پرامن رہنا ہوگا، عدالت عظمیٰ نے شفاف انتخابات کیلئے پی ٹی آئی اور حکومت سے پُرامن رہنے کی یقین دہانی مانگ لی۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نگراں حکومت کا دورانیہ 90 دن سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں نگراں حکومت کی مدت کا تعین کہیں نہیں کیا گیا۔ جس پر علی ظفر نے کہا کہ نگراں حکومت کا مقصد الیکشن ہوتا ہے جو 90 روز میں ہونا ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ الیکشن 90 دن سے 5 ماہ آگے کردیئے جائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 254 کا سہارا لیا ہے، کیا ایسے معاملے میں آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 254 کا سہارا کام کرنے کے بعد لیا جاسکتا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کام کرنے سے پہلے ہی سہارا لے لیا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 254 آئین میں دی گئی مدت کو تبدیل نہیں کرسکتا، آرٹیکل 254 آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تمام 5 ججز کے دستخط ہیں، فیصلوں میں اختلافی نوٹ شامل ہونا معمول کی بات ہے، سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا، سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کرسکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ انتخابات پرامن، شفاف اور منصفانہ ہونے چاہئیں، الیکشن ہمارے گورننس سسٹم کو چلانے کیلئے بہت اہم ہے، الیکشن کا عمل شفاف اور پُرامن ہونا چاہئے، آرٹیکل 218 انتخابات کے شفاف ہونے کی بات کرتا ہے، ہمارے لیڈرز نے اب تک اس کیلئے کیا کیا ہے؟۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کیس کو 2 سے 3 دن بعد مقرر کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی تک سماعت ملتوی کی جائے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نامزد اٹارنی جنرل مجھ سے آج ملاقات کر کے گئے ہیں، کل تک نئے اٹارنی جنرل بھی آجائیں گے۔
واضح رہے کہ 2 روز قبل پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
بعد ازاں سیکیورٹی اور معاشی مشکلات کے پیش نظر پہلے دی گئی تاریخ منسوخ کرتے ہوئے 8 اکتوبر کو الیکشن کرانے کا اعلان کردیا۔